’لسبیلہ میں گاؤں اور دیہات زیر آب آ چکے ہیں۔ لوگ مدد کے منتظر ہیں مگر سڑکوں کا نام و نشان مٹ چکا ہے اور سیلابی پانی میں گھرے کئی لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔‘
یہ کہنا ہے کہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے رہائشی قیصر رونجھا کا۔ جو غیر سرکاری تنظیم وانگ بلوچستان کے سربراہ بھی ہیں۔
قیصر رونجھا کہتے ہیں کہ ’مسلسل بارشوں نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ لسبیلہ کے تقریباً تمام شہروں اور علاقوں کا کوئٹہ اور کراچی سے رابطہ کٹ چکا ہے۔ لوگ متاثرہ گاؤں اور علاقے چھوڑنا چاہتے ہیں مگر چھوڑ نہیں پا رہے۔ تقریباً پورے لسبیلہ میں موبائل اور لینڈ لائن فون کام نہیں کر رہے ہیں۔ رابطے کے ذریعے منطقع ہیں۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈی سی لسیبلہ کے دفتر کے اردگرد کی سٹرکیں بھی پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ لسبیلہ میں فوری طور پر ایک بڑا امدادی آپریشن شروع کرنا ناگزیر ہے کیونکہ حالات بہت ہی سنگین دکھائی دے رہے ہیں۔‘
حالیہ بارشوں کے بعد اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑے شہر کراچی کے بعد بلوچستان کا ضلع لسبیلہ انتہائی متاثرہ علاقوں میں شامل ہے۔ اس سے قبل طوفانی بارشوں نے کوئٹہ میں تباہی مچائی تھی۔
مون سون بارشوں کے باعث صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں متعدد شہر متاثر ہوئے ہیں۔
پشاور کے نواحی علاقے کے رہائشی قمر خان پیشے کے لحاظ سے سرکاری ملازم ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’گذشتہ روز دریائے کابل کا پانی ہمارے گھروں میں داخل ہوا۔ رات کے اندھیرے میں بیوی بچوں کے ساتھ گھر چھوڑنا پڑا۔ گھر کا سارا سامان تباہ ہو چکا ہے۔‘
راولپنڈی اُردو بازار کے تاجر مستنصر حسین کہتے ہیں کہ دکان میں موجود آدھا مال اور گودام میں موجود سارا مال پانی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ہے۔
جبکہ چترال کے گل نصیب کا کہنا ہے کہ ’میرا پورا گھر تباہ ہو چکا ہے۔ صرف میرا ہی نہیں کئی لوگوں کے گھروں کو جزوی اور مکمل نقصان پہنچا ہے۔ کئی لوگ کھانے پینے اور بنیادی ضرورت کی اشیا کے محتاج ہو چکے ہیں۔‘
ملک بھر میں اس تباہی کا سبب حالیہ مون سون کی بارشوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔